loading

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۹۹}

علم امام کی حدود

ترجمہ: عون نقوی

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

سدير بيان كرتے ہيں كہ ہم چند لوگ ايك دن اكٹھے بيٹھے تھے كہ اچانك امام جعفر صادق ؑ تشريف لاۓ وہ كافى غمگين لگ رہے تھے۔ وہ اپنى نشست پر براجمان ہوۓ اور غضبناك لہجے ميں ارشاد فرمايا كہ مجھے تعجب ہے كہ جو لوگ ہمارے بارے ميں يہ كہتے پھرتے ہيں كہ ہم علم غيب جانتے ہيں۔اللہ تعالى كے علاوہ اس كائنات ميں كوئى اور ذات نہيں ہےكہ جو علم غيب جانتى ہو۔ ميں چاہ رہا تھا كہ اس كنيز كو سزا دوں كہ جس نے غلطى كى تھى ليكن اسے پتہ چل گيا كہ امامؑ مجھےسزا دينا چاہتےہيں وہ بھاگ گئى اور مجھے نہيں پتہ كہ اب وہ كہاں گئى ہے ( پس يہ كيسے ممكن ہے كہ ميں علم غيب جاننے لگ گيا؟)يہ فرما كر امام ؑ اس مجلس سے اٹھ كر چلے گئے سدير بيان كرتے ہيں كہ ميں اور چند اور شاگرد بھى اٹھ كھڑے ہوۓ اورامامؑ كے پاس گئے اور عرض كى يا مولا! ہمارى جانيں آپ پر فدا ہوں ہم نے آپ كى تقرير سنى جس ميں آپ ؑ نے اپنى كنيز كا ذكر كيا ہے ليكن ہم جانتے ہيں كہ آپ كے پاس تو بہت زيادہ علم موجود ہے ؟ امام ؑ نے فرمايا كہ اے سدير كيا قرآن كى يہ آيت تم نے نہيں پڑھى كہ جس ميں اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے :

«قالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ‌ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ‌».

 ترجمہ: اس(آصف بن برخيا)نےكہ جو كتاب ميں سے كچھ علم ركھتا تھا كہا: ميں ملكہ سبا كا تخت آپ كے سامنے پيش كردوں گا اس سے پہلے كہ آپ كى آنكھ كى پلك جھپكے۔[1] نمل:۴۰۔

سدير نے عرض كى يامولا اس آيت كو پڑھا ہے، تو امام ؑ نے فرمايا كہ اس آصف بن برخيا كے پاس كتاب كا كتنا علم تھا كيا تمہيں پتہ ہے؟ تو سدير نے عرض كى يا مولا آپ ہى بتاديں۔ امام ؑ نے فرمايا كہ اس كے پاس پورے سمندر ميں سے صرف ايك قطرے كا علم تھا۔ پھر امام ؑ نے ايك اور آيت قرآن مجيد كى تلاوت كى :

«قُلْ كَفَى بِاللهِ شَهِيداً بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ».

ترجمہ:كہہ دو كہ اللہ تعالى اور جس كے پاس كتاب كا علم ہے تمہارے اور ميرے درميان كافى ہے ۔[2] رعد:۴۳۔

امام ؑ نے فرمايا كہ اب بتاؤ كيا اس كے پاس زيادہ علم ہوگا جو كتاب ميں سے كچھ جانتا ہے يا اس كے پاس جو مكمل كتاب كا علم جانتا ہے ؟ سدير كہتےہيں كہ ميں نے عرض كى يا مولا! بے شك جس كے پاس مكمل كتاب كا علم ہو وہ زيادہ جانتا ہے ۔ اس پر امامؑ نے اپنےسينہ اقدس كى طرف اشارہ كيا اور فرمايا: خدا كى قسم! تمام كتاب كا علم ہمارے پاس ہے ۔
نوٹ:

يقيناً پہلى مجلس ميں كہ جہاں امام ؑ نے فرمايا كہ علم غيب فقط اللہ تعالى جانتا ہے وہاں پر حكومتى جاسوس اور مخالفين موجود تھے كہ جس كى وجہ سے امام ؑ نے تقيہ فرمايا جبكہ دوسرى مجلس ميں چونكہ اپنے شاگردان كے ساتھ خلوت ميں تھے اس لئے حقيقت كو آشكار فرمايا اور بتايا كہ اللہ تعالى نے آئمہ اطہار ؑ كو علم غيب سے بہرہ مند فرمايا ہے اوران كا علم كا مرتبہ آصف بن برخيا (وزير حضرت سليمانؑ ) سے كہيں بڑھ كر ہے )۔[3] محمدی اشتہاردی،محمد، داستان ہای اصول کافی، ص۴۴۔ [4] کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،ج۱،ص۲۵۷،ح۳۔

منابع:

منابع:
1 نمل:۴۰۔
2 رعد:۴۳۔
3 محمدی اشتہاردی،محمد، داستان ہای اصول کافی، ص۴۴۔
4 کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،ج۱،ص۲۵۷،ح۳۔