{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۰}
طوطا اور سوداگر
اىك تاجر ہندوستان كے سفرِتجارت پر نكلتے ہوۓ اپنے پالتو طوطے سے پوچھتاہے كہ بتاؤ تمہارے لئے سفر سے واپسى پر كىا تحفہ لاؤں تو اس پر طوطے نے جواب دىا كہ تحفہ تو نہىں چاہئے البتہ اىك خواہش ہے اور وہ ىہ كہ جب ہندوستان پہنچو اور باغوں مىں طوطے اڑتے ہوۓ دىكھو تو ان كو مىر ا پىغام دىنا كہ تمہارا اىك ہم جنس مىرے پاس پنجرے مىں قىد ہے۔جب تاجر ہندوستان پہنچا اور اىك باغ مىں طوطوں كا اڑتاہوا اىك جھرمٹ دىكھا تو انہىں اپنے پالتو طوطے كا پىغام دىا ۔اور كہا كہ اپنے قىدى دوست كے لئے پىغام ہے تو بتاؤ۔ىہ سنتے ہى تمام طوطے چشم زدن مىں نىچے گر گئے اور مرگئے۔سودا گر سفر سے لوٹ آىا اور طوطے كو تمام واقعہ سناىا۔جب طوطے نے ىہ المناك خبر سنى تو وہ بھى مرگىا۔سوداگر نے طوطے كى ٹانگ پكڑى اور باہر پھىنك دىا۔لىكن دىكھتے ہى دىكھتے طوطا باہر آتے ہى كھلى فضاؤں مىں اڑنے لگ گىااب پتہ چلا كہ باغ كے طوطوں نے جو كچھ كىا وہ اس طوطے كے لئے اىك پىغام تھا۔ىہ تمثىل راہ ِ خدا پر چلنے والوں كے لئے اىك سبق ہے كہ اگر تم قفس عنصرى سے آزادى چاہتے ہو تو تمہىں چاہئے كہ اپنے اوپر موت طارى كرلو۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۴۲۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۴۲۔ |
---|