{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۴۸}
شمر کا حضرت عباسؑ کے لیے امان نامہ
عاشوركى شب ہے ۔ ابوالفضل العباسؑ امام عالى مقام ؑ كى خدمت ميں تشريف فرما ہيں ۔ اسى اثناء ميں دشمن كى فوج كا ايك سردار آتاہے اور پكار كر كہتا ہے : ميں عباس ابن علىؑ اور ان كے بھائيوں سے ملنا چاہتا ہوں۔ عباسؑ سنتے ہيں ليكن كوئى توجہ نہيں ديتے گويا كہ انہوں نے كچھ سنا ہى نہيں۔ وہ بدستور حسين ؑ ابن علىؑ كے سامنے باادب بيٹھےرہتے ہيں حتى كہ امام حسين ؑانہيں مخاطب كركے فرماتے ہيں : اگرچہ وہ فاسق ہے ليكن اسے جواب دو۔ عباس ؑ آتے ہيں اور دیکھتے ہىں كہ شمر بن ذى الجوشن ہے ۔ عباس ؑ كى والدہ سے دور كى رشتہ دارى اور ہم قبىلہ ( حضرت عباس ؑ كى والدہ ام البنين اور شمر ايك ہى قبيلے سے تعلق ركھتے تھے) ہونے كى بنا پر وہ بزعم خود خير خواہى كے عنوان سے حضرت عباس ؑ اور ان كے بھائيوں كے لئے كوفہ سے آتے ہوۓ ايك امان نامہ لے كر آيا تھا ۔جب وہ اپنا مدعا بيان كرليتا ہے تو حضرت عباسؑ بڑى سختى سے اسے جواب ديتے ہيں اور فرماتے ہيں : تجھ پر اور اس پر جس نے تجھے يہ امان نامہ ديا ہے خدا كى لعنت ہو۔تو نے مجھے كيا سمجھا ہے اور ميرے بارے ميں كيا گمان ہے ؟ كيا تو نے يہ گمان كيا ہے كہ ميں ايك ايسا انسان ہوں جو اپنى جان بچانے كے لئے اپنے امام اور بھائى حسين ؑ كو یہاں چھوڑ كر تيرے پاس آ جاؤں؟ جس دامن كے ساۓ ميں ہم بڑے ہوۓ ہيں اور جس ماں كا ہم نے دودھ پياہے اس نے ہمارى يہ تربيت نہيں كى۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۲۳۷۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۲۳۷۔ |
---|