{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۴۷}
ذکر امام حسینؑ میں خرافات
كہتے ہيں كہ ايك قصبےميں ايك بہت بڑے عالم رہتے تھے جن كے دل ميں كسى حد تك دين كا درد پايا جاتا تھا وہ ہميشہ اس كذب بيانى پر اعتراض كرتے تھے جو منبر سے كى جاتى تھى ۔وہ كہا كرتے تھے كہ يہ خرافات كيا ہيں جو تم منبروں پر بيٹھ كر بيان كرتے ہو؟ ايك مرتبہ ايك خطيب نے ان سے كہا كہ اگر ہم يہ باتيں بيان كرناچھوڑ ديں تو ہمارا كاروبار بند ہوجاۓگا ان صاحب نے جواب ديا كہ يہ باتيں جھوٹى ہيں اور بيان نہيں كى جانى چاہىيں۔ اتفاق سے كچھ عرصے بعد خود ان صاحب نے ايك مجلس عزا برپا كرنے كا ازادہ كيا اور اپنى مسجد ميں ہى مجلس كا اہتمام كيا اور اسى خطيب كو دعوت سخن دى۔ تاہم مجلس شروع ہونے سے پہلے انہوں نے خطيب سے كہا كہ ميں ايك مثالى مجلس منعقد كرنا چاہتا ہوں جس ميں كربلا كے صحيح واقعات كےعلاوہ كچھ نہ پڑھا جاۓ۔ آپ اس بات كا خيال ركھيں كہ معتبر كتابوں سے ہٹ كر كوئى بات نہ كريں۔ يعنى يہ كہ آپ كو’’ خرافات‘‘ سے مكمل پرہيز كرناہوگا۔ خطيب كہنے لگاچونكہ مجلس كا اہتمام آپ كررہے ہيں اس لئے جيسا آپ كہيں گے ويسا ہى كيا جاۓگا۔ پہلى رات بانى مجلس خود محراب ميں روبقبلہ يىٹھے تھے اور منبر بھى محراب كے پاس ہى تھا۔ خطيب نے كچھ گفتگو كرنےكے بعد كربلا كے واقعات بيان كرنا شروع كئے اور اپنے آپ كو صرف صحيح واقعات تك محدود ركھا۔ ليكن اس نے جو كچھ كہا اس كى وجہ سے مجلس ميں كوئى رقت طارى نہ ہوئى ۔ بانى مجلس نے ديكھا كہ عجيب صورتحال پيدا ہوگئى ہے ۔ يہ مجلس تو ان كى اپنى ہے بعد ميں لوگ كہيں گے كہ فاطمہؑ اشكوں كى تمنالئے اٹھ گئيں اور عورتيں كہيں گى كہ ان صاحب كى نيت صاف نہيں تھى مجلس ميں رقت پيدا كيسے ہوتى؟ اگر ان كى نيت درست ہوتى تو اب تك كربلا بن جاتى۔ انہوں نے ديكھا كہ ان كى عزت خطرے ميں ہے لہذہ سوچنے لگے كہ اب كيا كريں؟ چنانچہ انہوں نے آہستہ سے خطيب سے كہا كہ اس ميں تھوڑى سى ’’ خرافات‘‘ بھى شامل كردو۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۲۱۹۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۲۱۹۔ |
---|