loading

خیار غبن

فقہاء کی اصطلاح میں ایسا معاملہ جس میں قیمت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے یا غفلت و بے توجہی کی وجہ سے مہنگی چیز خرید لی یاسستی چیز بیچ دی تو شرائط کی صورت میں خیارِ غبن حاصل ہو جاتا ہے۔

اہم فقہی اصطلاح: 

۱۔ خیار کا معنی:
فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیان  ایک معاملہ انجام پائےتو اس عقد اور معاملہ کو انجام دینا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہو گا، مثلاًدکاندار اور گاہگ کے درمیان خرید وفروخت انجام پائے تو معاملہ کی رعایت کرنا اور اس عقد پر عمل کرنا ضروری ہو گاسوائے ان چند موارد کے جن میں معاملہ کو باطل کرنا اور عقد کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔  اگر فریقین کو عقد فسخ کرنے اور معاملہ توڑنے کا اختیار حاصل ہو تو اس کو ’’خیار‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معاملہ اور عقد توڑنے کے اختیار کو ’’خیار‘‘ کہتے ہیں۔ [1]سیستانی، سید علی حسینی ، المسائل المنتخبۃ، مسئلہ: ۷۰۳۔  فقہی کتب میں متعدد معاملات ایسے ذکر ہوئے ہیں جن میں  شرائط کی صورت میں ’’خیار‘‘ حاصل ہو جاتا ہے اور فریقین معاملہ کو توڑنے اور فسخ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
۲۔ غبن کے لغوی معنی:
ان خیارات میں سے ایک خیارِ غبن ہے ۔ لغوی اعتبار سے مشورہ نہ کرنا، معاملہ میں خیانت کرنا اور دھوکا دینا غبن کہلاتا ہے۔ معروف عربی لغت مصباح منیر میں مذکور ہے کہ اگر ’’غبن‘‘ باب ضَرَبَ یضربُ سے ہو تو اس کا مصدر ’’غَبْنًا‘‘ آتا ہے جس کا مطلب خرید و فروخت میں غبن کرنا ہے۔ لیکن اگر غبن باب تَعِبَ یتعَبُ سے تو اس کا مصدر ’’غَبَنًا‘‘ آتا ہے جسے مراد مشورہ نہ کرنا یا رائے اور مشورہ میں غبن کرنا ہے۔  

۳۔ غابن اور مغبون:
جس کو خیار غبن حاصل ہے وہ ’’مغبون‘‘ کہلاتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ غبن ہوا ہے اور غبن کرنے والے ’’غابن‘‘ کہلاتا ہے۔  ذیل میں ’’خیارِ غبن‘‘ سے متعلق موجود مراجع عظام کے فقہی مسائل پیش خدمت ہیں:

سوال :۱
خیار غبن کب حاصل ہوتا ہے؟ 

جواب:
[رہبر معظم سید خامنہ ای]: اگر ایک معاملہ میں’’ گاہگ‘‘ یا ’’دکاندار‘‘ دھوکا کھا جائیں ، یعنی گاہگ نے ایک جنس کی اصلی قیمت سے زیادہ قیمت دی یا دکاندار نے اصلی قیمت سے کم قیمت میں چیز کو بیچ دیا تو اس صورت میں خیارِ غبن حاصل ہو گا۔ خیارِ غبن یعنی مغبون (جس نے دھوکا کھا یا ہے) کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ معاملہ کو باطل کر دے یا معاملہ کو قائم رکھے۔اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ خریداری کرتے وقت اگر اصلی قیمت کے ساتھ اتنا فرق آ رہا ہے جسے معاشرے کی نظر میں نظر انداز کیا جا سکتا ہے تو اس صورت میں خیار غبن حاصل نہیں ہو گا لیکن اگر عُرف کی نگاہ میں قیمت کا فرق نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تو ایسی صورت میں مغبون کے لیے خیارِ غبن ثابت ہو گا۔  [2]رہبر معظم، سید علی خامنہ ای ، رسالہ ی آموزشی ۲، خیار غبن۔

[آیت اللہ سیستانی]:  اگر ایک شخص بازار کی رائج قیمت سےکم قیمت پر چیز کو فروخت کرے تو اس کے لیے خیار غبن ثابت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر چیز خریدے تو اس کے لیے بھی یہ خیار ثابت ہو گا۔ قیمت کا کم یا زیادہ ہونا‘‘ معاملہ میں عائد کی گئی شرط کو مدنظر رکھتے ہوئے ملاحظہ کی جائے گی ۔ [3]سیستانی، سید علی حسینی ، منہاج الصالحین، ج ۲، ص ۴۵۔

سوال :۲

کن صورتوں میں خیارِ غبن حاصل نہیں ہوتا اور انجام پانے والے معاملہ کو نہیں توڑا جا سکتا؟ 

جواب:
[آیت اللہ سیستانی]: خیار غبن جس کے لیے ثابت ہوتا ہے اس کو مغبون کہتے ہیں۔ اگرگاہگ معاملہ کے وقت جنس یا شیء کے بارے میں جانتا تھا اور اس کے صحیح یا خراب ہونے سے واقف تھا تو معاملہ انجام پانے کی صورت میں مغبون کے لیے خیارِ غبن ثابت نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر دکاندارلا پرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنی طرف منتقل ہونے والی رقم کے کم ہونے کو اہمیت دیئے بغیر معاملہ کر لیتا ہے تو اس دکاندار کےلیےخیارِ غبن ثابت نہیں ہے۔

سوال :۳

خیار غبن اس وقت حاصل ہوتا ہے جب معاملہ انجام پایا تھا یا اس وقت حاصل ہوتا ہے جب غبن یا دھوکا ظاہر ہوا تھا؟ 

جواب:
[آیت اللہ سیستانی]: