{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۸}
حاسد دولت مند کا انجام
اىك دولت مندشخص كا اىك غلام تھا وہ دولت مند شخص اس غلام سے بہت اچھا سلوك كرتاتھا۔وہ اسے بہترىن لباس ، بہترىن كھانااور خوب پىسے دىتاتھا۔وہ غلام دىكھتاتھا كہ اس كا آقا بہت پرىشان رہتا ہے اس نے اپنے آقاسے اسكے دل كا حال درىافت كىا تو آقا نے كہا:مىں تمہىں آزاد كرنا چاہتا ہوں اور تمہىں بہت سى رقم بھى دىنے كے لئے تىار ہوں لىكن تم مىرا اىك كام كرو۔غلام نے كہا آپ جو حكم كرىں مىں وىسا ہى كروں گا۔اس پر آقا بولا تم مىرا سر تن سے جدا كردو اور مىراكٹا سر مىرے ہمساۓ كے گھر كى پچھلى دىوار كے پاس پھىنك دىنا ۔ىہ سن كر غلام كے رونگٹے كھڑے ہوگئے ۔اس نے كہا مىں ىہ كام نہىں كرسكتا ۔ پھراس نے پوچھا كہ اے آقا !لىكن آپ ىہ سب كىوں چاہتے ہىں؟تو اس نے جواب دىا كہ اب مجھ سے مىرے اس رقىب كى ترقى برداشت نہىں ہوتى، وہ ہر لحاظ سے مجھ پر برترى لے گىا۔ہم دونوں اىك دوسرے كے رقىب تھے لىكن اس نے مجھ پر اب برترى حاصل كرلى ہے اب مىرا جىنا فضول ہے ۔اگر مىں مارا جاؤں تو سارا الزام اس پر آئىگا اور وہ پھانسى چڑھ جائىگا اور مىرا مقصد پورا ہوجائىگا۔بالآخر غلام نے اس كا قتل كر دىا اور اس كے نتىجے مىں اس دولت مند كے رقىب كوجىل بھىج دىا گىا۔بعد مىں كہاگىا كہ اگر ىہ قاتل ہوتا تواسے اپنے گھر كے پچھواڑے مىں قتل نہ كرتالہذہ ماجرہ كىا ہے ؟معاملہ پىچىدہ ہوگىا۔غلام كو بھى اس كے ضمىر نے چىن نہ لىنے دىا اس نےقاضى كے سامنےآكر اعتراف جرم كىا اور سارا ماجرہ سناىا كہ ىہ اس تاجر كى اپنى ضد اور اسى كا اصرار تھا وہ حسد كى آگ مىں جل رہاتھا كہ موت كو زندگى پر ترجىح دىتا تھا۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۷۷۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۷۷۔ |
---|