loading

تقلید

تقلید کے بارے میں تفصیلی طور پر بیان کریں۔

تقليد كا لغوى معنى دو وارد ہوئے ہيں :
۱) كسى شىء كا كسى دوسرى شىء سے جڑ جانا اور اس شىء كے پيچھے پيچھے رہنا
۲) قسمت و نصيب
تقليد كا پہلے لغوى معنى كا مطلب ہے كہ ايك شىء كا مضبوطى كے ساتھ دوسرى چيز كے ساتھ جڑنا اور اس كے پيچھے پيچھے رہنا ۔
اس معنى ميں تقليد اكثر و بيشتر موارد ميں مذموم عمل ہے كہ انسان بلاوجہ كسى كى پيروى كرے اور اپنے آپ كو كسى سے جوڑ لے۔ قرآن كريم ميں اس لغوى معنى ميں تقليد كى مذمت كى گئى ہے ۔ كيونكہ انبياء عليہم السلام جب لوگوں راہِ الہى پر بلاتے تو وہ اپنے آباء واجداد كى تقليد كى دليل پيش كرتے ۔
ہم جب فقہى امور ميں تقليد كہتے ہيں تو اس سے مراد يہ لغوى معنى نہيں ہوتا ۔ لغوى معنى ميں تقليد جائز نہيں ہے ۔ بلكہ ’’ تقليد ‘‘ ايك فقہى اصطلاح ہے جس كا مطلب ہے وہ مسائل جن كا حل انسان قرآن و حديث سے خود استنباط نہيں كر سكتا ان مسائل ميں كسى با شرائط مجتہد كے فتوى كى پيروى كرے ۔ فقہى تقليد درج ذيل چيزوں سے وجود ميں آتى ہے :
۱) انسان خود اپنا مسئلہ حل نہ كر سكے
۲) انسان مسئلہ حل كرنے كے ليے با شرائط مجتہد كى طرف رجوع كرے ، مثلا مجتہد ميں يہ شرائط موجود ہوں : عاقل ہو ، بالغ ہو ، مرد ہو ، عادل ہو ، حلال زادہ ہو ، شيعہ اثنا عشرى ، زندہ ہو ،
۳) ضرورى ہے كہ مجتہد اپنى رائے بيان نہ كرے بلكہ قرآن و حديث و عقل سے جو استنباط كيا ہے اس استنباط كو پيش كرے ۔ اسى ليے عدالت كى شرط مجتہد كے ليے ضرورى ہے ۔ اگر عادل نہ ہو تو معلوم نہيں ہو گا كہ شرعى حكم بيان كر رہا ہے يا اپنا حكم ذكر كر رہا ہے
۴) ديگر تمام مجتہدين سے زيادہ علم ركھتا ہو ، تقليد كرنے والے كى نگاہ ميں
اگر پہلى تين شرائط موجود نہ ہو تو تقليدِ فقہى وجود ميں نہيں آتى ۔ اس ليے تقليد كے لغوى معنى اور فقہى تقليد ميں فرق كرنا ضرورى ہے ۔
قرآن كريم :
سورہ حشر آيت ۷ ميں ہے :
ْ وَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
اور جو تمہيں رسول ديں وہ تم لے لو اور جس سے منع كريں اس سے منع ہو جاؤ
اس طرح كى ديگر آيات سے نتيجہ يہ ملتا ہے كہ ہم رسول اللہ ص اور آئمہ طاہرين عليہم السلام جو ديں وہ لے لو ۔ تقليد فقہى كا نظام اہل بيت ع نے ہميں عنايت كيا ہے ۔
حديث :
متعدد روايات ميں تقليدِ فقہى كا حكم وارد ہوا ہے ۔ ان روايات ميں بعض صحيح السند ہيں اور بعض ضعيف السند ۔ مشترك اور جامع نكتہ يہ ہے كہ با شرائط عالم كى طرف رجوع كيا جائے ۔ ان روايات كے ليے تقليد كے موضوع پر لكھى گئى كتابوں كى طرف رجوع كريں جو نيٹ پر موجود ہيں ۔
سيرت آئمہ ع :
اہل بيت عليہم السلام نے اس كا اجراء خود كيا ۔ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم تاريخ و حديث كى كتابوں كے مطابق تبليغات كے ليے صحابہ كرام كو بھيجتے تھے ۔ اسى طرح امام على ع نے پورے عالم اسلام ميں اپنے نمائندے مقرر كيے ۔ ديگر آئمہ ع كى سيرت بھى واضح ملتى ہے ۔ ان سب شواہد كےليے تقليد كے موضوع پر لكھى گئى كتابوں كى طرف رجوع كريں جوكہ نيٹ پر موجود ہيں

انسان کی بخشش اسکے مجتہد کے ذمہ ہے اسکی وضاحت چاہیے؟ جبکہ روز آخرت کوئی انسان ایک دوسرے کو نہ پہچانے گا اور ہر انسان اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہوگا؟

يہ بات ٹھيك نہيں ہے كہ انسان كى بخشش اس كے مجتہد كے ذمے ہے ۔ انسان اپنے عمل كا خود ذمہ دار ہے ۔ يہ معلومات صحيح نہيں كہ انسان كا مجتہد اس كى بخشش كا ذمہ دار ہے ۔

ہم سے پوچھیں

_

    بدون نظر

    Leave a Reply

    Your email address will not be published. Required fields are marked *