{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۴۰}
بی بی زینبؑ کی للکار اور یزید کی رسوائی
سيدہ زينب كبرىٰؑ كو قيدى بنے بائیس روز گزر چكے تھے ۔اتنا عرصہ مسلسل دكھ تكليف برداشت كرنےكے بعد انہيں درباريزيد ميں لاياگيا ۔يزيد كا ’’ كاخ خضرا‘‘ جو اس كے باپ نے شام مىں بنوايا تھا اتنا شاندار تھا كہ جو كوئى اس كى بناوٹ سجاوٹ اور شان و شوكت كو ديكھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا ۔بعض مؤرخين نے لكھا ہے كہ لوگوں كو پہلے سات دالانوں ميں سے گزرنا پڑتا تھا پھر وہ اس آخرى دالان ميں پہنچتے تھے جس مىں يزيد ايك مزين اور مرصع تخت پر بيٹھتا تھا ۔تمام امراء و روساء اور سفراء بھى سونے چاندى كى بنى ہوئى كرسيوں پر وہاں بيٹھتے تھے ۔اس صورتحال ميں قيديوں كو پيش كيا گيا۔ اس موقع پر دكھ كى مارى شہزادى زينبؑ كى روح ميں ايسا ولولہ پيدا ہوا جس نے حاضرين كے دلوں ميں بھى ولولہ پيدا كرديا ۔يزيد جو اپنى فصاحت و بلاغت كے لئے مشہور تھا گُنگ ہو كر رہ گيا ۔يزيد اشعار گنگنا رہا تھا اور جو ظاہرى كاميابى اسے نصيب ہوئى تھى اس پر فخر كررہا تھا ۔ جناب زينبؑ نے اسے مخاطب كرتے ہوۓفرمايا:’’ اے يزيد! تو سمجھتا ہے كہ آج تو نے ہميں قيدى بناليا ہے اور زمين ہم پر تنگ كردى۔ اور ہم تيرے نوكروں كے رحم و كرم پر ہيں ۔ تو يہ پروردگار كى طرف سے تيرے لئے ايك نعمت و تحفہ ہے؟ خدا كى قسم! تو اس وقت ميرى نظروں ميں بے حد پست، حقير اور گھٹيا ہے ۔ اور ميرى نظروں ميں تيرى كوئى حيثيت نہيں‘‘ سيدہ زينبؑ نے درباريزيد ميں ايسى شعلہ ورآواز ميں تقرير كى كہ يزيد كے ہوش و حواس اڑ گئے اوراس ظالم اور ملعون كا پورا وجود غصے كى آگ ميں جلنے لگا ۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۱۷۵۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۱۷۵۔ |
---|