{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۶۸}
بو علی سیناؒ
ابو على بن سيناؒ نے بيس برس كى عمر ميں اپنے دور كے جملہ علوم ميں مہار ت حاصل كر لى تھى۔ الہیات، رياضى اور دينى علوم ميں اپنے دور كے ممتاز اور نامور علماء ميں شمار كئے جانے لگے۔ ايك روز وہ اس عہد كے مشہور و معروف عالم ابن مسكويہ كے درس ميں تشريف لے گئے اور نہايت غرور اورگھمنڈ كے ساتھ ايك اخروٹ ابن مسكويہ كے سامنے ركھتے ہوۓ كہا: اس اخروٹ كى سطح اور اس كا رقبہ كياہے؟ابن مسكويہ نے علم اخلاق و تربيت پر اپنى لكھى ہوئى كتاب ابن سينا كى طرف بڑھائى اور كہا: تم پہلے اپنے اخلاق كى اصلاح كرلو تاكہ ميں اس اخروٹ كى سطح اور اس كا رقبہ نكال سكوں مجھے اس بات كا اعتراف ہے كہ ميں اس اخروٹ كى سطح كا تعين نہيں كرسكتا مگر مجھےيقين ہے كہ تم علم اخلاق ميں مجھ سے زيادہ محتاج ہو يعنى ميں علم رياضى ميں اتنا محتاج نہيں ہوں جتنا تم علم اخلاق ميں محتاج ہو لہذہ تمہيں اپنے اخلاق كى اصلاح كرنى چاہئے۔ ابو على سينا ابن مسكويہ كى يہ بات سن كر بہت شرمندہ ہوۓ صرف اتنا ہى نہيں بلكہ تمام عمر اس جملے كو راہ نماۓ اخلاق كى حیثیت سے اپنے سينے سے لگاۓ ركھا۔۔[1] شہید مطہری، مرتضی،سچی کہانیاں،ص۸۸۔[2] شہید مطہری،مرتضی، داستان راستان،ج۱،ص۷۱۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،سچی کہانیاں،ص۸۸۔ |
---|---|
↑2 | شہید مطہری،مرتضی، داستان راستان،ج۱،ص۷۱۔ |