{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۹}
بوعلی سیناؒ کی شرمندگی
كہتے ہىں كہ بو على سىنا كچھ عرصہ وزىر بھى رہے اىك روز وہ وزىر اعظم كى حىثىت سے پورے دبدبے اور جاہ جلال كے ساتھ كہىں جارہے تھے ۔اتفاق سے ان كا گزراىك بىت الخلاء(باتھ روم) كے پاس سے ہوا جہاں اىك خاكروب اسے صاف كر رہا تھا اور وہ ىہ شعر پڑھ رہا تھا۔اے نفس! مىں نے تجھے اس لئے عزىز ركھا تاكہ تىرى دنىا مىرے دل پر آسان گزرے۔بوعلى سىنا نے اس سے پوچھا كہ واقعى تم نے اپنے نفس كو عزىز ركھا اور اس سے بہتر اور كوئى كام نہیں ملا تجھے؟خاكروب نےعاجزى سے كہا:مىں نے ىہ شغل اس لئے اختىار كىا ہے كہ آپ كى طرح كسى دوسرے كا محكوم اور تابع نہ بنوں، جوكچھ آپ كے اور دنىا كے دوسرے رؤساء كے پاس ہے اس كے مقابلے مىں خاكروب كا كام كرنا اور زىادہ بہتر ہے ۔كہتے ہىں كہ ىہ سن كر بو على شرمندگى سے پسىنے مىں نہا گئے كىونكہ ىہ اىك لاجواب دلىل تھى۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۸۲۔كسى نے سچ كہاكہا ہے کہ:
ملے خشك روٹى جو آزاد رہ كر
تو وہ خوف و ذلت كے حلوہ سے بہتر۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۸۲۔ |
---|