{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۶۹}
ایک زاہد کی امام باقرؑ کو نصیحت اور امام کا جواب
گرمى كاموسم تھا ۔ گرم ہوا اوردھوپ كى شدت سے شہر مدينہ اور اس کےاطراف كے تمام كھيت اور باغات برى طرح سے جھلس رہے تھے اسى اثناء ميں ايك بڑا متقى ، پرہيزگار ، زاہد ، عبادت گزار اور تارك دنيا اتفاقا كسى كام سے شہر مدينہ سے باہر نكلا تو اچانك اس كى نگاہ ايك ايسے تندرست آدمى پر پڑى جو كڑى دھوپ كى پرواہ كئے بغير اپنے كچھ ساتھيوں كو لئے چلا جارہاہے وہ اپنے کھیتی كى ديكھ بھال كے لئے جارہاتھا ۔ اس مرد زاہد نے سوچا كہ يہ كون ہے جو اس شديد گرمى ميں خود كو دنيادارى ميں مشغول كررہاہے۔ وہ زاہد اس شخص كے قريب پہنچاتو ديكھا كہ يہ محمد بن على ابن الحسینؑ یعنی امام باقر ؑ ہيں ۔ اس زاہد نے سلام كىا اور كہنے لگا :كيا يہ مناسب نہيں كہ آپ جيسا شريف انسان اس شديد گرمى ميں دنيا طلبى كى وجہ سے گھر سے باہر نكلے ۔ موت كى خبر كس كو ہے اگر آپ كو اسى حالت ميں موت آجاۓ تو آپ كى كيا حالت ہوگى ؟ امام ؑنے خندہ پيشانى سے اسے جواب ميں فرمايا :شايد تمہیں معلوم نہيں كہ ميں اس وقت جو كچھ كررہاہوں وہ عين عبادت ہے تو يہ خيال كرتا ہے كہ صرف ذكر و نماز اور دعا ہى عبادت ہے؟ ميرى بھى اپنى زندگى اور زندہ رہنے كے لئے اخراجات كى ضرورت ہوا كرتى ہے اگر ميں محنت نہ كروں گا تو تكليف اٹھاؤنگا اور اپنى ضروريات كے لئے تیرے جيسے لوگوں كا محتاج ہوجاؤں گا ميں اس وقت طلب رزق و تلاش معاش ميں ہوں اس وقت موت كے آنے كا خوف مجھے ہرگز نہيں كيونكہ ميں معصیت خدا كا مرتكب ہرگز نہيں ہورہا۔[1] شہید مطہری، مرتضی،سچی کہانیاں،ص۹۱۔[2] شہید مطہری،مرتضی، داستان راستان،ج۱،ص۷۳۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،سچی کہانیاں،ص۹۱۔ |
---|---|
↑2 | شہید مطہری،مرتضی، داستان راستان،ج۱،ص۷۳۔ |