loading

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۴۷}

ایام عید میں آل محمدؑ کا غم

ترجمہ: عون نقوی

عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ امام باقرؑ نے فرمایا:

«یا عَبْدَ اللَّهِ مَا مِنْ عِيدٍ لِلْمُسْلِمِينَ- أَضْحًى وَ لَا فِطْرٍ إِلَّا وَ هُوَ يُجَدِّدُ لآِلِ مُحَمَّدٍ فِيهِ حُزْناً قُلْتُ وَ لِمَ ذَاكَ قَالَ لِأَنَّهُمْ يَرَوْنَ حَقَّهُمْ فِي يَدِ غَيْرِهِمْ».

اے عبداللہ! مسلمانوں کی کوئی عید اضحی اور فطر ایسی نہیں گزرتی، مگر یہ کہ اس میں آل محمد کا غم تازہ نہ ہو۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟(آپ کا غم کیوں تازہ ہو جاتا ہے؟) فرمایا: کیونکہ وہ (آل محمد) دیکھتے ہیں کہ ان کا حق (امرِ امامت یعنی حکومت) غیروں (طاغوتوں) کے ہاتھوں میں ہے۔[1] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴،ص۱۷۰،ح۲۔ [2] شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۱۷۵،ح۲۰۵۸۔

متعدد روایات میں اہل بیتؑ نے اپنے حق حاکمیت کے غصب ہونے پر ناراحتی اور غم کا اظہار فرمایا ہے۔ لوگوں پر امامت اور حکومت کرنے کا حق اللہ تعالی نے آئمہ معصومینؑ کو عطا کیا ہے۔ یہ غم نعوذ باللہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ اہل بیتؑ کو حکومت سے بہت دلبستگی اور منصب اور مقام کی ہوس تھی۔ بلکہ اس غم کا اظہار اس لیے فرمایا کرتے تھے کہ جب امت ایک الہی رہبر کی بجاۓ طاغوتی اور نااہل، بے لیاقت و ہوسران حاکم کی حاکمیت میں  آ جاتی ہے تو وہ گمراہ اور ضلالت کا شکار ہو جاتی ہے۔ در اصل آئمہ معصومینؑ کا غم امت کی گمراہی، ضلالت و انحراف کی خاطر تھا، ایک غیر الہی حاکم آتا ہے تو وہ مسیرِ ہدایت کو تبدیل کر دیتا ہے اور الہی حاکم امت کو الہی مسیر کی طرف چلاتا ہے۔ ایام عید ایک طرح سے امت اور امام کے دن ہیں، امام آتا ہے اور امت سے خطاب کرتا ہے ان کو خطرات سے آگاہ کرتا ہے لیکن ان ایام میں جب آئمہ معصومینؑ دیکھتے ہیں کہ طاغوتی حاکم ان کے منصب پر بیٹھ کر امت کو گمراہ کر رہے ہیں آئمہ کے غم تازہ ہو جاتے ہیں۔حقیقی مومنین وہی ہیں جو ایام عید میں اپنے اپنے شہروں اور علاقوں میں غیر الہی حکام کو دیکھ کر آئمہ معصومینؑ کے غم کو یاد کر کے غمزدہ ہوں،ان طواغیت کی سرنگونی اور حقیقی رہبر، وقت کے امام کی عالمی حکومت کے لیے دعا گو ہوں اور ان کے ظہور کے لیے میدان کو آمادہ کریں۔