{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۵۰}
امام حسینؑ کا حق
عاشورہ كے دن امام عالى مقامؑ نماز پڑھا رہے تھے تو دشمن نے تير اندازى شروع كردى۔ يہ تیر اندازی دو طرح كى تھى۔ ايك جانب زبان كے تيرتھے۔ ايك شخص نے چلا كر كہا: اے حسين ؑ! بے شك نماز پڑھو ليكن تمہارى نماز كا كوئى فائدہ نہيں ۔ تم اپنے زمانے كے امام يزيد كے باغى ہو(نعوذباللہ)لہذہ تمہار ى نماز قبول نہيں۔دوسرى طرف وہ اپنى كمان سے بھى تير پھينك رہے تھے۔وہ تير امام ؑ كے ان دو صحابيوں كو جنہوں نے اپنے آپ كو امام ؑكے لئے ڈھال بنا ركھا تھا ، اس طرح لگے كہ وہ زمين پر گرگئے۔ ان ميں سے ايك سعيد بن عبداللہ حنفى تھے ۔تير لگنے سے ان كى يہ حالت ہوئى كہ امام نے نماز ختم كى تو ان كا آخرى دم تھا۔ امام ؑ خودان كے سرہانے پہنچے ۔ جب آپؑ ان كے قريب پہنچے تو سعيدؓ نے اىك عجیب جملہ كہا۔ انہوں نے عرض كى’’ يا ابا عبدالله! اوفيت‘‘يعنى كيا ميں نے وفا كا حق ادا كرديا؟ ايسا معلوم ہوتا تھا كہ وہ سوچ رہے ہيں كہ امام حسين ؑ كا حق اس قدر بڑا ہے كہ جس كى ادائیگی كے لئے اتنى جان نثارى شايد كافى نہ ہو۔۔[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۲۳۷۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۲۳۷۔ |
---|