loading

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۵۴}

امام جوادؑ کا معجزہ

ترجمہ: عون نقوی

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

خلیفہ معتصم عباسی کا دور خلافت تھا۔ ایک شخص کو شہر سامرا میں اس جرم میں پکڑا گیا اور زندان میں ڈالا گیا کہ اس نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔علی بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس جھوٹے پیغمبر کو نزدیک سے دیکھوں گا اور تحقیق کروں گا کہ کون ہے اور کیا کہتا ہے؟ میں سامرا کے زندان گیا اور دربان سے بات کی۔مجھے اس جھوٹے پیغمبر سے بات کرنے کی اجازت مل گئی میں نے جا کر اس سے بات کی ،میں نے دل ہی دل میں کہا کہ بندہ تو بہت سمجھدار لگتا ہے کیسے زندان میں پہنچ گیا اور اس سے پوچھا کہ تمہارا قصہ کیا ہے کیسے تم زندان میں ڈال دیے گئے؟اس نے کہاکہ میں شام کے شہر دمشق میں ایک جگہ پر عبادت کر رہا تھا ،یہ جگہ وہ ہے جہاں پر سر مبارک امام حسینؑ رکھا گیا تھا۔ایک شخص (امام جوادؑ)میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اٹھو اور میرے ساتھ چلو۔میں اس کے ہمراہ چل پڑا ناگہان میں نے خود کو مسجد کوفہ میں پایا۔اس شخص نے کہا کہ کیا تم اس جگہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ مسجد کوفہ ہے۔اس نے نماز پڑھی اور میں نے بھی نماز پڑھی۔میں اس شخص کے ہمراہ ہی تھا کہ اچانک میں نے خود کو مسجد نبوی مدینہ میں پایا۔اس نے پیغمبر کو سلام کیا،میں نے بھی سلام کیا۔اس نے نماز پڑھی ،میں نے بھی نماز پڑھی۔میں اس کے ہمراہ ہی تھا کہ اچانک خود کو مکہ میں پایا۔وہ شخص مناسک حج انجام دینے لگا میں نے بھی اس کے ساتھ وہی اعمال انجام دیے۔آخر میں اچانک میں نے خود کو اسی جگہ پایا جہاں ابتدا میں بیٹھا تھا(رأس حسینؑ کی جگہ یعنی شام میں)اگلے سال وہ شخص دوبارہ آیا اور پچھلے سال کی مانند میں نے اس کے ساتھ زیارات کیں۔ جب حج سے فارغ ہوا اور مجھے شام واپس لے آیا تو میں نے اس شخص سے کہا کہ میرا آپ سے ایک تقاضا ہے۔میں نے اس سے کہا کہ آپ کو اس کے حق کا واسطہ جس نے آپ کو یہ طی الارض کی قوت عطا کی ہے، مجھے بتائیں کہ آپ کون ہیں؟ اس نے کہا کہ میں محمد بن علی بن موسی (امام جوادؑ)ہوں۔یہ خبر مشہور ہو گئی۔یہاں تک کہ یہ خبر محمد بن عبدالملک  تک پہنچی جو کہ معتصم کا وزیر تھا۔اس نے حکم دیا کہ مجھے گرفتار کیا جاۓ اور زنجیروں میں باندھے ہوۓ عراق لا یا جاۓ اور اب میں یہاں قید میں بند ہوں۔علی بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ تمہیں چاہیے کہ اپنی داستان تشریح کے ساتھ لکھ کر محمد بن عبدالملک کے پاس بھیجو ۔شاید اس کو تمہارے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور اس نے تمہیں بغیر کسی جرم کے ہی زندان میں ڈالا ہوا ہے۔اس شخص نے اپنا سارا ماجرا محمد بن عبدالملک کو لکھ بھیجا۔لیکن چونکہ محمد بن عبدالملک امام جوادؑ کی امامت اور ان کے طی الارض کے واقعے پر اعتقاد نہ رکھتا تھا طنز اور گستاخی کرتے ہوۓ جواب دیا کہ جس نے تمہیں ایک لحظے میں شام سے مدینہ اور مکہ لایا اسی سے کہو اب تمہیں زندان سے بھی آزاد کرواۓ۔علی بن خالد کہتے ہیں کہ میں زندان جاتا رہا اور اس کو دلداری دیتا رہا اور کہتا رہا کہ صبر کرو،یہاں تک کہ ایک صبح جب میں زندان گیا تو دیکھا کہ زندان کے تمام نگہبان اور دربان جمع ہیں اور میٹنگ کر رہے ہیں ۔پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ وہ شخص جو بقول ان کے پیغمبری کا دعوی کر رہا ہے زندان سے گم ہو گیا ہے اور کسی کو بھی پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں گیا ہے؟زمین میں دھنس گیا ہے یا کوئی پرندہ اس کو اڑا کر لے گیا ہے؟وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ امام جوادؑ نے ہی اس شخص کو طریق اعجاز امامت زندان سے آزادی عطا فرمائی۔[1] محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول كافى، ص۳۴۲۔ [2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۳،ح۱۔

منابع:

منابع:
1 محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول كافى، ص۳۴۲۔
2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۳،ح۱۔