{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۵۵}
امام جوادؑ کا خاک پا
شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:
عبداللہ بن رزین کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں موجود تھا۔ میں تقریبا ہر روز امام جواد ؑ کو دیکھتا تھا کہ وہ مسجد نبوی میں داخل ہوتے صحن مسجد سے قبر نبیﷺ کے پاس جاتے اور سلام کرتے، پھر حضرت فاطمہؑ کے گھر کے اطراف سے ہوتے ہوۓ اپنی نعلین اتارتے اور ادھر نماز ادا کرتے ،ان کا یہ معمول میں بہت دنوں سے دیکھ رہا تھا۔شیطان نے مجھے وسوسہ کیا اور میں نے ارادہ کیا کہ ان کے پاؤں کی خاک کو اپنے لیے اٹھاؤں۔ (امام جوادؑ علنی صورت میں اس کام کی اجازت نہیں دیتے تھے)اگلے دن میں منتظر تھا کہ اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہناؤں،جب ظہر ہو گئی تو میں نے دیکھا کہ امام اپنے گدھے پر سوار ہیں۔ لیکن معمول کے مطابق جس جگہ سے آتے تھے اور مسجد نبوی میں داخل ہوتے وہاں سے داخل نہیں ہوۓ،بلکہ ایک ایسی جگہ پر اپنی سواری سے اترے ہیں جہاں پتھریلا فرش تھا۔مسجد نبوی میں گئے اور سلام کیا۔وہاں جا کر نماز ادا کی اور اپنی نعلین مبارک کے ساتھ نماز ادا کی۔یہی معمول چند دن تک رہا اور میں ان کے خاک پا کو اٹھانے میں ناکام رہا۔میں نے سوچا کہ مسجد میں یہ کام میرے لیے اب ممکن نہیں رہا۔کیا ہی خوب ہے کہ حمام جاؤں اور وہاں چھپ جاؤں۔جب وہ حمام تشریف لائیں گے تو جیسے ہی اپنا قدم مبارک زمین پر رکھیں گے میں وہاں سے خاک اٹھا لونگا۔امام حمام تشریف لاۓ۔ میں حمام گیا اور پوچھا کہ امام کس حمام میں تشریف لے گئے ہیں۔کہا گیا کہ جو حمام بقیع میں ہے وہاں موجود ہیں اس حمام کو طلحہ کے خاندان کا ایک شخص چلاتا ہے۔ وہاں گیا او رپتہ کیا کہ امام کس دن اور کس وقت حمام تشریف لاتے ہیں؟میں اسی دن اور اسی وقت حمام گیا اور امام کا منتظر رہا، حمامی نے مجھے دیکھا تو کہا کہ اگر تم حمام جانا چاہتے ہو تو جلدی کرو کیونکہ اس کے بعد ابن الرضاؑ حمام استعمال کر یں گے۔میں نے کہا کہ ابن الرضا کون ہیں؟اس نے کہا کہ ابن الرضا آل محمد میں سے ایک پاک و با فضیلت انسان ہیں۔میں نے کہا کہ تو کیا ان کے ساتھ کوئی اور حمام میں نہیں جا سکتا کیا؟اس نے کہا کہ جی نہیں!جب وہ آتے ہیں تو مکمل طور پر حمام میں خلوت ہو جاتی ہے۔اسی اثناء میں دیکھا کہ آپ اپنے غلاموں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں۔ان کا ایک غلام آگے آگے چل رہا تھا۔اس کے پاس ایک چٹائی تھی اس نے حمام میں داخل ہو کر وہ چٹائی بچھائی۔امام اپنے گدھے پر سوار تھے حمام میں اپنے گدھے سمیت داخل ہوۓ اور اس چٹائی پر جا کر گدھے سے اتر گئے۔(اس دفعہ بھی میں ان کے پاؤں کی خاک حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا)میں نے حمامی سے پوچھا آل محمد کہ جس شخص کی تم تعریف و تمجید کر رہے تھے کیا وہ یہی شخص ہے؟اس نے کہا کہ ہاں!یہی شخص ہے لیکن آج تک اس حمام میں آنے کا یہ معمول نہیں تھا۔میں نے خود سے کہا کہ شاید میری نیت کو جانتے ہوۓ امام ایسا کر رہے ہیں اور گدھے پر سوارہوکر حمام داخل ہو گئے ہیں۔میں وہیں موجود رہا تاکہ اگر امام باہر تشریف لاتے ہیں تو شاید اس وقت اپنا مقصود حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں۔کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ امام حمام سے فارغ ہوچکے ہیں باہر آ کر اپنا لباس پہن رہے ہیں اور اسی چٹائی پر ہی اپنی سواری پر سوار ہو گئے ہیں اورجانے کے لیے آمادہ ہو رہے ہیں۔میں نے وہیں پر خود کو کہا کہ آئندہ ایسی نیت دل میں نہیں کروں گا کیونکہ میری نیت سے امام کو تکلیف ہو رہی ہے۔آج جب وہ مسجد نبوی تشریف لاۓ تو پہلے والے معمول کے ساتھ تمام امور انجام دیے،مسجد کے صحن میں داخل ہوۓ،رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا ،حضرت فاطمہؑ کے گھر کے اطراف کی طرف گئے، اپنے نعلین مبارک اتارے اور وہیں نماز ادا کی اور پھر اپنے گھر کی طرف واپس چلے گئے۔[1] محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول كافى، ص۳۴۴۔ [2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۳،ح۲۔
منابع:
↑1 | محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول كافى، ص۳۴۴۔ |
---|---|
↑2 | کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۳،ح۲۔ |