{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۵۶}
امام جوادؑ اور مامون کے نیرنگ
شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:
مامون الرشید(ساتواں عباسی خلیفہ)نے امام رضاؑ کی شہادت کے بعد امام جوادؑ کو اپنا طرفدار بنانا چاہا۔ اس کام کے لیے اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے امام کو دنیا طلب انسان بنا کر اپنا مشاور یا وزیر بنایا جاۓ تاکہ شیعوں کے قیام سے بھی بچ کر رہے اور امام کو بھی اپنے زیر نظر رکھ سکے۔لیکن اس کے تمام منصوبوں کو امام نے ناکام بنایا۔ انہیں منصوبوں میں سے اس نے ایک منصوبہ یہ بنایا کہ امام کو اپنا داماد بنایا او ر اپنی بیٹی ام الفضل کا نکاح امام سے کروا دیا۔ جس دن امام اور ام الفضل کی شادی کا دن تھا اس دن مامون نے ایک بہت بڑی سرکاری تقریب کا اہتمام کیا۔ دو سو کے قریب زیبا ترین خواتین کو بلوایا گیا اور ان کو کہا گیا کہ جب امام اپنے مسند پر تشریف لائیں تو تم سب نے ایک جام اٹھانا ہے جس میں طلا اور قیمتی گوہر ہونگے اور امام کے پاس جانا ہے ،سب خواتین اپنا جام امام کو پیش کریں گی ،منصوبے کے مطابق ایک ایک خاتون ترتیب سے اپنے ناز و عشوہ سے امام کی کرسی کے قریب آتی ان کے سامنے جام پیش کرتی لیکن امام نے کسی بھی خاتون کی طرف ذرہ برابر توجہ نہ کی۔اسی تقریب میں مامون نے ایک تارزن بھی بلوایا ہوا تھا جس کا نام مخارق تھا۔اس کی بلند داڑھی تھی مامون نے اسے اپنے قریب بلایا اور اسے کہا اس طرح سے تار بجاؤ کہ امام اپنی معنوی حالت سے باہر نکل آئیں اور تھوڑا سا امور مادی میں مشغول ہوں۔ مخارق نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ جس طرح تو چاہتا ہے اسے امور مادی کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مخارق امام کے سامنے جا کر پہلے گدھے کی آوازیں نکالنے لگا،اور پھر ساز بجانے لگا، پوری محفل اس کی حرکات کو دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی اور اسی کی طرف متوجہ تھی۔امام اس کی طرف اصلا متوجہ نہ ہوۓ حتی دائیں بائیں بھی نہ دیکھا۔جب امام کے آگے وہ اپنی بے حیائی کی حرکات کو تیز کرنے لگا تو امام نے فریاد بلند کی اور فرمایا:«اتَّقِ اللَّهَ يَا ذَا الْعُثْنُونِ»اے بلند داڑھی والے! خدا سے ڈر۔مخارق امام کی فریاد سے اس قدر وحشت زدہ ہوا کہ ساز اور باجہ اس کے ہاتھوں سے گر گیا اور اس کا ہاتھ فلج زدہ ہو گیایہاں تک کہ آخر عمر تک اس کا ہاتھ ٹھیک نہ ہوا۔مامون نے مخارق کو بلوایا اور اس سے تمام ماجرا بتانے کو کہا۔ مخارق نے کہا کہ جب امام نے مجھ پر فریاد بلند کی تو میں اتنا وحشت زدہ اور ہراسان ہوا کہ اب تک وہ ڈر اور خوف میرے وجود کو گھیرے ہوۓ ہے۔اور اس حالت سے میں بالکل بھی باہر نہیں نکل سکا ہوں۔[1] محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول كافى، ص۳۴۶۔ [2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۴،ح۴۔
منابع:
↑1 | محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول كافى، ص۳۴۶۔ |
---|---|
↑2 | کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۴،ح۴۔ |