بعثت کا عالی ترین ہدف
بعثت کا عالی ہدف انسانوں کو پستی اور پلیدگی سے نکال کر انسانیت کے عالی ترین مدارج تک پہنچانا ہے۔ وہ انسان جو اللہ کی عبودیت سے نکل کر تمام غیر معبودوں کے عبد بنے ہوۓ ہیں، اور طاغوتوں کے چنگل میں ہیں۔ انسانوں کو اللہ کی عبودیت کی طرف لانے اور طاغوت سے نجات دینے کے لیے انبیاء مبعوث ہوۓ ہیں۔ قرآن کریم[1]میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«وَ لَقَدْ بَعَثْنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ».ترجمہ: اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔
۱۔ فطرت کی بیداری
اللہ تعالی نے انسان کو فطرت عطا کی ہے۔ جس میں تمام الہی تعلیمات رکھ دی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر طبیعت بھی رکھ دی ہے جو اسے سرکشی اور طغیانی پر ابھارتی ہے۔ اگر سب انسان فطرت کے عین مطابق زندگی گزارنے لگ جائیں تو انسان کامل بن سکتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی اکثریت طبیعی میلان کے مطابق زندگی گزارتی ہے۔ طبیعت کی سرکشی کو روکنے کے لیے اور فطرت کو بیدار کرنے کے لیے نبی مبعوث ہوۓ ہیں۔امیرالمومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں:«وَ يُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ».ترجمہ: وہ عقل کے دفینوں کو ابھاریں انسان کے پاس فطرت نامی بہت قیمتی اور فضیلت سے سرشار سرمایہ موجود ہے۔ لیکن اس کو درست راستے میں تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر تربیت کے ذریعے فطرت کو ابھار دیا جاۓ تو انسان تکامل حاصل کر لیتا ہے۔
۲۔ تعلیم و تربیت
عقل و فطرت کے دفائن کو ابھارنے کے لیے نبی امت کو تعلیم و تربیت دیتا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت کے ذریعے فطرت کیسے بیدار ہو؟کیا مدرسہ بنا دیں تو تعلیم و تربیت دے سکتے ہیں؟ یا سکول اور یونیورسٹیز بنا دیں تو تعلیم و تربیت کا ہدف پورا ہو جاۓ گا؟ کیا انبیاء بھی اسی طرح سے تعلیم وتربیت کرتے ہیں جس طرح سے ہم تعلیم و تربیت کے سسٹم بناتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے مدرسہ یا سکول نہیں بنایا۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سکول کالج وغیرہ نہ بنائیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ تعلیم و تربیت کا طریقہ سیکھیں۔ جس طرح سے ہم تعلیم و تربیت دیتے ہیں اس طرح سے فطرت بیدار ہو جاۓ گی؟ جی نہیں! مصنف فرماتے ہیں کہ انبیاء الہی کا تعلیم و تربیت کا ایک خاص انداز ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک ایسا سالم اور متناسب ماحول بناتے ہیں جس میں انسان نشو و نما پا سکے۔ ایک الہی و توحیدی عادلانہ معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ جب الہی و توحیدی معاشرہ وجود میں آ جاتا ہے تو انسان تیزی سے فطری مراحل کو طے کرتا ہے اور قرب الہی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ سورہ حدید میں الہی و توحیدی عادلانہ معاشرے کے قیام کو انبیاء الہی کی بعثت کا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ وارد ہوا ہے:«لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتابَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ».
ترجمہ: بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔ اصل میں بعثت انبیاء اس لیے ہوئی کہ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو اور لوگوں میں عدالت کا نظام قائم کیا جا سکے۔ جب تک یہ عدالت اجتماعی قائم نہیں ہو جاتی اور انسان کے لیے سالم و متناسب ماحول ایجاد نہیں ہو جاتا تعلیم و تربیت ممکن نہیں۔ آپ کوشش کریں گے تعلیم و تربیت کی لیکن اس کا اثر نہ ہوگا کیونکہ اجتماعی طور پر جس معاشرے میں انسان رہ رہے ہیں وہ فاسد ہے۔ وہ ظلم کی اساس پر ہے۔ اگر اجتماعی طور پر ظلم کے نظام میں انسان رہیں اور انفرادی طور پر ان کو تعلیم و تربیت دی جاتی رہے اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں۔
انبیاء الہی کا ظالمین سے ٹکراؤ
جب بھی نبی نے لوگوں کے اندر تعلیم و تربیت کو عام کیا ان کا معاشرے کے ظالم افراد حاکم طبقے سے ٹکراؤ ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ اس ظالم و حاکم طبقے کے اسی ظالمانہ نظام کے ساتھ مفادات ہیں۔ اگر لوگ تعلیم و تربیت پا جائیں تو اس کے نتیجے میں ان افراد کے ظلم کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن یہ ظالم طاقتیں چاہتی ہیں کہ یہ نظام ایسا ہی چلتا رہے اور ان کی بے شعوری سے حتی الامکان فائدہ اٹھایا جاۓ۔ جب نبی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے تو ظالم و حکمران طبقہ ان کا دشمن ہو جاتا ہے۔ انبیاء الہی تاریخ بشریت کے دشمن دار ترین انسان گزرے ہیں۔ اگر آپ ایسے افراد کی لسٹ بنائیں جن کے سب سے زیادہ دشمن رہے ہیں ان میں سرفہرست انبیاء ہونگے۔ ممکن ہے دشمن خود ان کے گھر سے کھڑا ہو جاۓ۔ اپنا بھائی، چچا یا ماموں، حتی آپ کی بیوی اور بچے دشمن بن جائیں۔ اس لیے کہ ممکن ہے جو تعلیم اور نظام آپ تشکیل دینا چاہ رہے ہیں اس میں ان افراد کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔ کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بعثت کے اہداف کے مطابق حرکت شروع کی ہو اور کسی نے ان کے ساتھ دشمنی نہ کی ہو۔ قرآن کریم اور روایات اہل بیتؑ میں کثرت سے ان موارد کی طرف اشارہ موجود ہے۔
حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت داوودؑ، اور حضرت سلیمانؑ۔ اسی طرح سے بقیہ انبیاء الہی کہ ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی اولاد پر ظلم ڈھاۓ گئے اور معاشرے نے سخت دشمنی کی۔ طعنے دیتے، نعوذباللہ پاگل مجنون کہتے۔ خود رسول اللہﷺ اور ان کے اوصیاء بارہ اماموں کے ساتھ کیا ہوا؟ تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے۔ جب بھی رسول یا امام نے بعثت کے اہداف کو پورا کرنے کی کوشش کی، تعلیم و تربیت کو عام کیا اور عدالت اجتماعی کو قائم کیا تو معاشرہ بدترین دشمنی پر اتر آیا۔
توحید در حاکمیت کی تعلیم
انبیاء الہی کا امت کو پڑھایا گیا پہلا درس توحید ہے۔ سب انبیاء نے توحید کا پرچار کیا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ لیکن توحید سے مراد کیا ہے؟ کیا توحید صرف ایک ذہنی تصور ہے؟ کیا ایک تصور ہے کہ ہم نے ذہن میں صرف ایک ذات کو قرار دینا ہے جو ہماری خدا ہے اور بس! جی نہیں۔ بلکہ توحید سے مراد یہ ہے کہ ہر مورد میں خدا کی وحدانیت کو مدنظر رکھنا ہے۔ عبادت بھی ایک خدا کی کرنی ہے، خالق بھی ایک خدا کو ماننا
Table of Contents
Toggle