اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدرت و ارادہ

مقدمات کی خصوصیات

عقلی دلیل کے مقدمات کی چار خصوصیات ہیں۔ ان خصوصیات کا آپس میں ربط سمجھنا بہت ضروری ہے:
۱۔ کلیت: عقلی دلیل کے مقدمات میں کلیت پائی جاتی ہے۔ یہ مقدمات کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ کسی ایک شخصیت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے کے اوپر ان کا اطلاق ہوتا ہے۔
۲۔ ذاتیت: عقلی دلیل کے مقدمات ذاتیت رکھتے ہیں۔ یعنی ان کی ذات تقاضا کرتی ہے کہ ان کو واقع ہونا چاہیے۔ ان کو ثابت کرنے کے لیے کسی اور چیز یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔ مثلا زمین کی حرکت کو ثابت کرنے کے لیے آپ کو دلیل لانا پڑے گی، لیکن خود زمین کا وجود ذاتی ہے۔ زمین موجود ہے یا نہیں اس کے لیے آپ کو دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ رشاشہکقکککہتب غب غشبتتب کابقشہبتہ ابہاغ کااہکا کغاک
۳۔ دوام: تیسری خصوصیت یہ ہے کہ دلیل کے مقدمات دائمی ہیں اور ہر زمانے میں استمرار رکھتے ہیں۔ چاہے وہ عصر نبوت ہو، آئمہ معصومینؑ کا دور ہو یا آج کا غیبت امام کا دور۔
۴۔ ضرورت: یہ امور ضروری ہیں۔ با الفاظ دیگر ایسے امور ہیں جن کو ان کی ذات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز دوسری شے سے جدا نہ ہو سکتی ہو اسے ضروری کہتے ہیں۔ مثلا آپ کا یہ کہنا کہ میں موجود ہوں۔ آپ کا وجود آپ کی ذات سے جدا نہیں ہو سکتا، یعنی آپ کا وجود آپ کی ذات کے لیے ضروری ہے۔
جب ہم نے ان مقدمات کا کلی ہونا ثابت کر دیا تو ماننا پڑے گا کہ یہ بات صرف نبوت اور امامت پر رک نہیں جاۓ گی بلکہ کلیت کی وجہ سے عصر نبوت اور عصر امامت کے بعد عصر غیبت کو بھی شامل ہوگی۔ مثلا معاشرے کو نظم کی ضرورت صرف آئمہ معصومینؑ کے دور میں نہیں تھی ، بلکہ آج بھی معاشروں کو نظم کی ضرورت ہے۔ کسی بھی زمانے میں یہ ضرورت ختم نہیں ہو سکتی، یہ ضرورت دائمی ہے۔ یہ دلیل اور اس کے مقدمات صرف نبوت اور امامت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ یہ دلیل عمومیت رکھتی ہے۔ اس دلیل سے در اصل آپ منصب نبوت و منصب امامت ثابت کرتے ہیں، کیونکہ پہلے نبوت اور امامت کو ثابت کرنا ضروری ہے پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ نبی یا امام کون ہے؟ اس دلیل سے عہدہ ثابت ہوگا پھر صاحب عہدہ ثابت کیا جاۓ گا۔ اس دلیل سے ہم منصب کو ثابت کریں گے صاحب منصب کو نہیں۔ جب نبوت اور امامت ثابت ہو جاۓ گی تو اب سوال ہوگا کہ وہ صاحب نبوت کون ہے؟ اسی طرح سے پہلے ولایت فقیہ کو ثابت کرنا ہوگا پھر سوال پیدا ہوگا کہ اس منصب پر فائز فقیہ کون ہے؟ محض عقلی دلیل کے مقدمات
ہمارے لیے تین امر قابل غور ہیں: نظم، قانون اور اجراء قانون۔۱۔ نظم کا کک اغ اغ اغغ اا
اگر نظم وجود میں نہ آۓ تو کوئی بھی کام درست نہیں ہو سکتا۔ اس کی آپ اپنی زندگی سے ہی ہزاروں مثالیں لا سکتے ہیں۔ حالیہ مسائل میں سے مثال لانا چاہیں تو یہی سیلاب ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز میں شدید بحران پیدا ہوا ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے یہ بدنظمی وجود میں آئی۔ آپ اگر معلوم کریں تو بہت سے ممالک سے ایک بھاری مقدار میں امداد پاکستانی حکومت کو موصول ہوئی ہے۔ لیکن اس کا کتنے فیصد حصہ سیلاب زدگان کو ملا ہے؟ آدھے سے زیادہ امداد تو غائب ہوگئی۔ یہ امداد حقدار تک کیوں نہیں پہنچی سکی؟کیونکہ نظم نہیں ہے۔ قانون نہیں ہے اور اگر قانون ہے بھی تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ بدنظمی ہے۔ اگر نظم ہوتا تو یہ گھرانے پھر سے آباد ہو سکتے تھے۔ جس معاشرے سے نظم ختم ہو جاتا ہے وہاں فساد پیدا ہوتا ہے۔ ابھی اربعین کے ایام ہیں اگر عراقی حکومت کروڑوں زائرین کا مناسب اہتمام نہ کرے تو بہت بڑا جانی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ جیسا کہ ۲۰۱۶ میں حج کے موقع پر منا میں ہوا۔ البتہ بعض شواہد بتاتے ہیں کہ جان بوجھ کر یہ حادثہ کروایا گیا تھا۔ بہرحال وہاں پر کیا ہوا؟ صرف انہوں نے رش کے نظم کو چھیڑا، آگے راستہ بند کر دیا اور پیچھے سے حاجیوں کا پریشر بڑھتا رہا، بیچ میں حاجی مر رہے تھے، لاشوں کی تہیں لگ گئیں۔ وہاں پر کوئی گولی تو نہیں چلائی گئی صرف نظم کو چھیڑا گیا۔ اور اس کے نتیجے میں ہزاروں حاجی شہید ہو گئے۔ پس نظم بہت ضروری ہے۔ نظم کے ضروری ہونے کے لیے ہمیں کسی آیت اور روایت سے دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر عقلمند انسان اس ضرورت کو محسوس کرتا ہے۔ یہ عقلی مقدمہ ہے۔ اسلامی معاشرہ نظم کا محتاج ہے یہ بدیہیات اور واضحات میں سے ہے۔

۲۔قانون

نظم برقرار کرنے کے لیے انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ یہ اتنی بدیہی ترین بات ہے کہ آپ اس کو ہر جگہ پر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پودا بھی بغیر نظم کے اور قانو بناۓنہیں اگ سکتا۔ پودے کو متناسب ہوا اور پانی دینا ہوگا، اس کی نمود کے لیے یہ قانون بھی بنانا ہوگا کہ اس کو آپ کے علاوہ کوئی نہ چھیڑے۔ اگر یہ قانون نہ بنایا تو یہ پودا بھی فاسد ہو جاۓ گا۔ ایک کامیاب ادارہ وہ ہے جس میں نظم اور قانون حاکم ہو۔ اگر اس ادارے میں کام کرنے والے افراد وقت میں منظم ہو کر نہیں آتے یا ان کے اوپر دیر سے آنے پر کوئی قانون نہیں بنایا جاتا تو یہ ادارہ کبھی نہیں چل سکے گا۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جو سنجیدہ افراد ہوتے ہیں اور کامیاب لوگ وہ اپنی زندگی میں اس بات کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ حتی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز یہی ہے کہ وہ منظم ہیں اور قانون کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بچپن سے ہی قانون کا احترام کرنا سکھایا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو لاشعوری طور پر قانون مند شہری بنتا ہے۔ گھر کا ماحول بھی انہیں دو چیزوں پر موقوف ہے۔ اگرچہ گھر کو بہت زیادہ قانونی شکل نہیں دے سکتے کیونکہ گھر گھر ہے اور سکون کی جگہ ہے ،ادارہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی وہاں پر ایک حد تک قانون کا ہونا ضروری ہے مثلا رات کے ۱۱ بجے تک سب افراد کا گھر پہنچ جانا۔ اگر یہ قانون نہ ہو تو گھر کے افراد ممکن ہے فاسد ہو جائیں۔ اسی طرح سے زندگی کے دیگر امور میں بھی نظم و قانون بنائیں۔ البتہ سب سے پہلے خود ان پر عمل کریں۔ ایسا کوئی حکم جاری نہ کریں جس آپ خود عمل پیرا نہ ہوتے ہوں۔ یہ بات بھی بدیہیات اور واضحات میں سے ہے۔ اس کے لیے آپ کو نقلی دلیل نہیں لانا پڑی۔ بلکہ عقل نے اس مقدمے کو بھی خود درک کیا ہے اور اس پر حکم بھی جاری کیا ہے۔ قانون کے ذریعے نظم کا پرپا ہونا اور اس کا اجراء کروانا کوئی ایسا امر نہیں ہے جو زمانہ امام کے ساتھ خاص ہو۔ بلکہ ہر دور میں یہ ضرورت موجود ہے۔ معاشرے کو نظم اور قانون کی ضرورت ہے قیامت تک رہے گی۔ حتی جب امام زمانؑ تشریف لائیں گے وہ بھی دین کے ذریعے ہی دنیا میں نظم قائم کریں گے۔ نبی اور امام دین حق لے کر آتا ہے ہدایت کا قانون لے کر آتا ہے۔ قانون کے مقولہ کے ذیل میں یہ بات بھی مسلم ہے کہ سب قانون نہیں بنا سکتے۔ قانون کو لانے والا صرف نبی ہے۔ اور یہ دروازہ اب بند ہو چکا ہے۔ شریعت کے عنوان سے اب کوئی بھی قانون نہیں لا سکتا۔ آئمہ معصومینؑ قانون لانے والے نہیں تھے بلکہ اس کے امین اور محافظ تھے۔ ولی فقیہ کا کام بھی قانون بنانا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف الہی قانون کو نافذ کرنا ہے۔ ممکن ہے حکم ثانوی کے طور پر کوئی بھی حاکم کسی حکم اولی میں تغییر لاۓ۔ مثال کے طور پر حکم اولی کچھ اور تھا لیکن حاکم کسی عمومی یرایارییقاجبہ ششششرجٹنمصمططمصلحت کے تحت اس کو کچھ عرصے کے لیے ممنوع قرار دے ۔

یہ صرف اضطراری صورتوں میں ہوتا ہے۔اس کا نمونہ ہم صدر اسلام میں بھی دیکھتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے بھی ایک سال احتجاجی طور پر ایرانی عوام کو حج پر جانے سے منع فرمایا۔ اب حکم اولی تو یہ تھا کہ جس شخص کو استطاعت حاصل ہو جاۓ اس پر حج کرنا واجب ہے جبکہ امام نے حج کرنے سے منع کر دیا تو کیا اس سے حکمِ خدا تبدیل ہو گیا؟ کیا ولی فقیہ نے دین کو معطل کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سال ایرانی حاجیوں کے قتل عام کااندیشہ لاحق تھا۔ اس لیے جو استطاعت حج کے لیے درکار ہوتی ہے اس سال مہیا نہ تھی۔ اسی طرح دو شروں میں سے ایک شر کا انتخاب بھی اضطراری صورت میں حکم ثانوی کی حیثیت سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ حکم اولی اور اصل یہ ہے کہ شر سے اجتناب کیا جاۓ۔ لیکن حکم ثانوی کے طور پر مثلا اتنی شراب پی جا سکتی ہے جس سے جان بچ جاۓ۔لیکن حکم ثانوی کا بہانہ بنا کر ہر حکم اولی کو ترک کر دینے کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان میں غیر الہی قانون
کسی بھی اسلامی ملک میں حکم اولی یہ ہے کہ اس ملک میں الہی قانون نافذ کیا جاۓ۔ الہی حکومت تشکیل دی جاۓ اور اس کا حاکم بھی اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہو۔ حکم اولی کے طور پر یہ صورت بنتی ہے۔ لیکن اگر تشخیص دی جاۓ کہ ہم اضطراری صورت میں ہیں تو حکم ثانوی کے طور پر غیر الہی قانون اور غیر الہی حاکم کو بھی ایک وقت تک قبول کیا جا سکتا ہے جب تک اضطراری حالت ختم نہ ہو جاۓ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں حکم ثانوی کا مورد ہے بھی یا نہیں؟ یہ کون ثابت کرے گا کہ پاکستان میں مومنین و مسلمین حکم اولی کو ترک کر سکتے ہیں اور حکم ثانوی پر عمل کریں؟ کیا واقعی پاکستانی امت اضطرار کی حالت میں ہے۔ کیونکہ ہم نے بیان کیا کہ حکم ثانوی اضطراری کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کی واقعی جان کو خطرہ ہے اور پیاس سے مرنے کا خطرہ ہے تو وہ اس مقدار میں شراب پی سکتا ہے جس سے اس کی جان بچ جاۓ۔ یہاں پر پیٹ بھر کر بھی شراب نہیں پی جا سکتی۔ اور جب مجبوری ختم ہو جاۓ تو فورا شراب پینا ترک کرنا ہوگا۔ کیا یہی صورت پاکستان میں بھی ہے؟ کیا حکم اولی پر عمل کرنا پاکستانیوں کے لیے قتل عام کے مترادف ہے؟ اور اگر غیر الہی نظام میں شریک نہیں ہوتے تو کیا ان کی جان کو خطرہ ہے؟ مثال کے طور پر ابھی پاکستان میں ایک بل پاس ہوا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے بعد مرد کی مرد سے شادی کو بھی قانونی قرار دیا جا سکے گا۔ یہ سلسلہ یہیں پر رک تو نہیں جانا۔ بعد میں یہ لوگ جانور سے شادی، اشیاء مادی سے شادی کرنے کو بھی قانونی کر دیں گے۔ کیونکہ ہمارے اکثر ادارے مغربی نظاموں کے تابع ہیں۔ آئین میں کچھ اور لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی حاکمیت ہوگی غیر اسلامی قانون کو پاس نہیں کیا جاۓ گا لیکن عملی طور پر یہ کام کرتے ہیں۔ کیا اضطرار کی صورت میں یہ بل پاس کروانا بھی جائز ہے؟ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اضطراری صورت نہیں ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں اور خود کو شریعت محمدیﷺ کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ہمیں عدالتوں میں برطانوی نظام کے مطابق نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی روش پر انصاف چاہیے۔ سیاسی، تعلیمی اور عسکری نظام دینی نظام کے مطابق چاہئیں نا کہ مغربی نظام کے مطابق۔

فاسق شخص کی حاکمیت کا جواز
اصل تو یہ ہے کہ کسی فاسق فاجر شخص کی حکومت قبول نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اضطراری صورت میں اس کو قبول کر لیا جاۓ۔ سوال یہ ہے کہ اضطرار کی حد کیا ہے؟ کیا ۷۰ سالوں سے پاکستانی قوم اضطرار کی حالت میں ہے۔ مثلا ایک شخص شراب کا عادی ہو جاتا ہے اور جب اس سے پوچھا جاۓ کہ شراب کیوں پیتے ہو تو وہ کہے کہ مجبوری ہے۔ اضطراری صورت ہے اگر شراب نہ پیوں تو مر جاؤں گا۔ کیا اس کی بات مانی جاۓ گی؟ جی نہیں! ایک قوم کب تک خود کو اضطراری حالت میں رکھ سکتی ہے؟ یہ غیر اسلامی بل انہیں فاسقوں کے ہاتھوں پاس ہوا ہے۔ پورا پاکستان جانتا ہے یہ لوگ کیسے عدل و انصاف کی حکومت قائم کر سکتے ہیں؟ انہوں نے یہ قانون بنا کر خاندانی نظام پر حملہ کیا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ مغرب کے انحطاط کی ایک بہت بڑی وجہ خاندانی نظام کی تباہی تھی۔ حلال نسل بہت ضرور ی ہے۔ ابھی جبکہ مغربی معاشروں کے مفکرین اس مسئلے پر حساسیت دکھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں حلال زادہ نہ ہونگی۔ گھرانہ موجود نہ ہوگا، افراد کو سکون، گھرانے کی طرف سے تقویت، }

 کیسے ختم کرے گی؟ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشروں میں بہت سے مسائل اس نعمت کی وجہ سے حل ہو جاتے ہیں جو گھرانے کی صورت میں ہمیں حاصل ہے۔ خاندان تقویت کا باعث بنتے ہیں، سکون اور راحت کا باعث بنتے ہیں۔ خاندانی نظام کو اس بل کے ذریعے برباد کیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے بھی اسی آفت کا شکار ہونگے جس میں مغربی معاشرہ مبتلا ہوا۔ پہلے انہوں نے معاشروں سے دین کو ختم کیا جب دیکھا کہ دین کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا اب دوبارہ دین کو واپس لا رہے ہیں۔ وہ خاندانی نظام کو ختم کرنے کے بعد دوبارہ خاندان کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں اور ابھی ہم وہ غلطی ابھی کرنے جا رہے ہیں۔

 

Scroll to Top