{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۳۰}
اسلامی ریاست کے حاکم کا طرز زندگی
اىك مرتبہ عمر بن خطاب رسول اكرم ﷺ كى خدمت مىں پہنچے ۔لىكن دربان نے كہا كہ آنحضرتﷺ نے اسے حكم دے ركھا ہے كہ كسى كو اندر نہ آنے دے۔حضرت عمر ىہ سن كر واپس آگئے۔عمر كہتے ہىں كہ مىں پھر چلا گىا اور اجازت چاہى لىكن پھر بھى آپ نے كوئى جواب نہىں دىا۔جب حضرت عمر تىسرى بار گئے تو اس مرتبہ آپ ﷺ نے اجازت دے دى۔ جب اندر گئے تو دىكھا كہ رسول اكرمﷺ كمرے مىں كھجور كے پتوں كى بنى ہوئى اىك چٹائى پر لىٹے ہوۓ ہىں اور اس چٹائى كى وجہ سے آ پ كے بدن پر نشانات پڑ گئے ہىں۔ ىہ دىكھ كر عمر نے كہا آپ كى حالت اىسى كىوں ہے؟قىصر و كسرىٰ جىسے لوگ تو نعمتوں مىں غرق ہوں اور آپ جو اللہ كے رسول ہىں اىسے حالات مىں بسر كرىں ۔رسول اكرمﷺ كو ىہ باتىں ناگوار گزرىں۔اور آپ ﷺ اپنى جگہ سے اٹھ كھڑے ہوۓ اورعمر سے مخاطب ہوۓكہ ىہ تم كىا معقول گفتگو كررہے ہو؟كىا دنىا تمہارى نگاہ مىں جلوہ گر ہوگئى ہے؟ كىا تم ىہ سمجھتے ہو كہ ان نعمتوں كا نہ ہونا مىرے لئے محرومى كاسبب ہے اور ان چىزوں كى موجودگى ان كے لئے نعمت كى دلىل ہے؟[1] شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۱۲۳۔
منابع:
↑1 | شہید مطہری، مرتضی،اسلامی داستانیں،ص۱۲۳۔ |
---|